تحریر: حافظ سید ذہین علی نجفی
حوزه نیوز ایجنسی| ماہِ مبارک رمضان ہے، خداوند عالم ہمیں معرفت کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق عطا کرے۔ آئیں روزے کے بارے میں چند اہم باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
روزہ کیا ہے؟؟
لغت میں روزہ (صوم) سے مراد کسی کام سے پرہیز کرنے کو کہتے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں صبح کی اذان سے مغرب کی اذان تک روزےکو باطل کرنے والی تمام چیزوں سے پرہیز کرنے کا نام روزہ ہے۔
روزہ رکھنے کی وجہ:
قرآن کریم تقوی اور پرہیزگاری کو روزہ رکھنے کی ایک وجہ بتاتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(بقره، 183)
اسی طرح ارادے اور اخلاص کی تقویت اسی طرح عباتوں کے ساتھ لگاؤ پیدا ہونا بھی روزہ رکھنے کے اہم ترین فلسفوں میں سے ہے۔روزہ رکھنے سے انسان بھوک اور پیاس کا احساس کرنے لگتا ہےجو باعث بنتا ہے کہ انسان آخرت اور قیامت کی جاودانہ زندگی کو یاد کرکے اس کیلئے تیاری کرے ۔ بھوک اور پیاس کی وجہ سے انسان کا تکبر اور غرور ختم ہوجاتاہے اور وہ دوسرے عبادات کی انجام دہی کیلئے آمادہ ہو جاتا ہے۔
حدیث قدسی میں حکمت اور خدا کے بارے میں قلبی شناخت اور معرفت حاصل ہونے کو روزہ رکھنے کے فوائد میں شمار کیا ہےجس کا نتیجہ زندگی کی سختیوں میں روحانی طور پر سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
روزہ رکھنے سے روزہ داروں کے درمیان ایک قسم کی ایثار اور ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور محروموں کی مدد اور ان کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ روزہ رکھنے سے انسان کی زندگی میں نظم و ضبط آجاتا ہے اور اسے قناعت پیشہ کرنے کا سلیقہ آتا ہے نیز انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں گناہوں اور گرفتاریوں کے مقابلے میں صبر کرنے کا مادہ بھی روزہ رکھنے کے ذریعے ہی پیدا ہوتا ہے۔ *یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک میں سماجی مفاسد میں قابل توجہ کمی دیکھنے میں آتی ہے۔
روزہ رکھنے سے جو صبر اور حوصلہ انسان میں پیدا ہوتا ہے اس سے انسان اپنی زندگی کے مقاصد میں کئی گنا پائداری اور استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے۔
روزے کی اقسام اور درجے:
روزہ کے تین درجےہیں: عوامانہ روزہ، خواص کا روزہ اور خاص الخواص کا روزہ یا دل کا روزہ۔
عوامانہ روزہ یہ ہے کہ انسان ان چیزوں سے اجتناب کرے جو روزےکو باطل کرتی ہیں۔خواص کا زوزہ یہ ہے کہ اس میں انسان مذکورہ موارد سے اجتناب کے علاوہ اس کے آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں اور دوسرے اعضاء و جوارح بہی روزہ رکھے۔ دن کو روزہ رکھے اور رات کو عبادت میں مشغول رہے اور لوگوں کی ایزا رسانی یا ان سے حسد کرنا وغیرہ کرنے سے پرہیز کرے۔ ذاتی دشمنیوں کو بالای طاق رکھے اور جس دن روزہ رکھتا ہے دوسرے ایام سے متفاوت اور مختلف ہو۔
خاص الخواص کا روزہ اس مرتبے میں مذکورہ بالا موارد کے ساتھ ساتھ انسان کا دل بھی روزہ رکھے یعنی اپنے دل کو غیر خدا کی طرف متوجہ ہونے سے پرہیز کرے اور اپنے نفس کو خواہشات اور غرایز سے دور رکھے یہاں تک کہ گناہ کا سوچ اور فکر بھی ذہن میں خطور نہ کرے۔رمضان المبارک جو کہ روزہ رکھنے کا مہینہ ہے اخلاق اور رفتار پر بھی خاص توجہ دینا چاہئے امام صادق علیہ السلام سے منقول حدیث کے مطابق اس مہینے میں خوش اخلاقی انسان کا پل صراط پر ثابت قدم رہنے کا سبب بنتا ہے۔ اب یہ بھی ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ صرف بھوک پیاس کے بجائے دین کو حقیقی روزہ رکھنے کی امید کن سے ہے؟
ماہ مبارک رمضان وہ خاص مہینہ ہے جس میں خالق کائنات نے بندگان خدا کو اپنا مہمان قرار دیا جس میں جنت کے دروزاے کھول دیے گئے جہنم کے دروازے بند کر دئیے گئے اس مقدس مہینے میں سانس لینا تسبیح قرار پایا اعمال کو مقبولیت کی سند پہلے سے جاری کر دی مومن روزہ دار کی نیند (سونے) تک کو عبادت قرار دیا گیا ایک آیت کی تلاوت کو پورے قرآن کا ثواب قدم قدم پے جنت کی بشارت درجات کی بلندی اور خوشنودی خدا جیسے انعامات روزے دار کو دئیے جا رہے۔۔۔ یہ سب صرف اسی ماہ میں کیوں ہے۔۔۔؟؟؟
ایک ماہ میں یہ سب کچھ پیکجز اور بونس کی صورت میں دیا جا رہا تاکہ بندگان خدا اپنے دیگر مہینوں کو بھی اسی ماہ کی طرح گذاریں تاکہ خدا کے رحمتیں شامل حال رہیں اور آخر پر اس ماہ میں ضیافت الہی سے مستفید ہونے والے اطاعت میں بر سر پیکار رہنے والوں کو عید جیسا انعام عطاء کیا گیا۔ بنیادی طور پر حقیقی عید ہی انکی ہے جنہوں نے اس ماہ مقدس میں اطاعت خداوندی کو بجا لاتے ہوئے روزہ رکھا قرآن مجید کی تلاوت و فہم کیساتھ حقیقی تزکیہ نفس کے لیے کوشاں رہے *اس ماہ مقدس میں خود کو معصیت سے دور رکھ کر آئندہ زندگی میں معصیت سے دور رہنے کا حقیقی ازم کیا ایسوں کو خدا بطور انعام عید عطاء کریگا۔
ایک اہم جاننے کی بات:
ہمارے ایک طرف شیطان ہے، جو بیرونی حملے کر کے انسان کو ورغلاتا ہے مگر دوسری طرف *انسانی نفس* ایک ایسی اندرونی قوت ہے جسے اندرونی شیطان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جو ہر وقت انسان کو برائی پے اکھساتا رہتا تو جن کے اندر کا نفس کمزور ہے جو سارا سال خارجی شیطان کی مدد سے کاروائیاں کرتا تھا ،وہ رمضان میں بھی بغیر وقفے کے برائی کا سلسلہ جاری رکھتا ہے ۔۔ جبکہ اس کے مقابلے میں جو نفس کو کنڑول رکھتے ہیں اور نفس کو خود پے سوار نہیں کرتے وہ اس ماہ مقدس میں بھی محفوظ نظر آتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ لوگ جو سارا سارا سال احکام دین کو روندتے ہیں انکے لیے ماہ مقدس میں ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفس کو کنٹرول کریں۔۔۔ اس موقع سے بہت سے لوگ زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔۔۔ مگر ایک طبقہ وہ ہےجو بالکل لا پرواہ ہے۔ مثلا منافع خور کی مثال یہ طبقہ سارا سال منافع خوری سے کام لیتے لہذا ماہ مبارک میں بھی اگر چہ اب شیطان بند ہے مگر اندر کا نفس انکو منافع خوری پے بڑھکاتا اور یہ لوگ ماہ مبارک کا احترام بھی روندتے نظر آتے اور عوام الناس پر ظلم کرتے دکھتے۔
دوسری طرف ایک روپیہ پٹرول مہنگا ہونے پر اشیاء خورد و نوش تو مہنگا کرتے مگر 20 روپیے سستا ہونے پر ایک روپیہ کم نہیں کرتے یہ بھی وہ لوگ ہیں جنہیں منافع خوری کی عادت ہو چکی ۔۔ تیسری وہ قسم جو سال بھر لوگوں کو لڑوا کر اپنے مفادات حاصل کرتے ایسے لوگ بھی باز نہیں آتے ۔۔۔ *لہذا پتہ چلا کے ماہ مبارک عبادات و اعمال انجام دینے کیساتھ ساتھ اندر کے شیطان کو شکست دینے ک مہینہ ہے۔۔۔ اندر کے نفس کو مارنے کا مہینہ ہے ۔
روزہ از نظر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ والہ وسلم:
پیغبر اکرم ص نے ماہ مبارک سے پہلے ایک خطبہ ارشاہ فرمایا جسے خطبہ شعبانیہ سے جانا جاتا ہے۔۔۔۔۔جس میں آپ نے رمضان المبارک کی فضلیت بیان فرمائی ہیں۔ چونکہ یہ خطبہ ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا اس لئے "خطبہ شعبانیہ" کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبے میں ماہ رمضان المبارک کی عظمت کے علاوہ ماتحت اور محتاجوں کا خیال رکھنے، آنکھ، کان اور زبان کو قابو میں رکھنے، قرآن کی تلاوت کرنے، درود بھیجنے اور قیامت کو یاد کرنے کی سفارش کی ہیں۔
مضامین خطبہ:
پیغمبر اکرم (ص) نے اس خطبہ کو ماہ رمضان کی اہمیت اور اس کی فضیلت کو بیان کرنے کے ساتھ شروع فرماتے ہیں اس کے بعد درج ذیل نکات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں *جن سے فلسفہ ماہ مبارک کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس مہینے میں روزہ رکھنے اور دیگر عبادات کے ثواب کا بیان۔
رحمت الہی سے محروم نہ رہنے کی تأکید۔ خدا کی رحمت کے دروازوں کا کھلنا؛ شیاطین کا زنجیروں میں جکڑے جانا؛ روزہ کی حرمت کا خیال رکھنا؛ قیامت کی بھوک اور پیاس کی یاد آوری؛ ماتحتوں، محتاجوں، بزرگوں اور بچوں کا خیال رکھنا؛ صلہ رحمی، افطاری دینا، اگرچہ ایک کجھور یا پانی کے ایک گھونٹ کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو؛ آنکھ، کان اور زبان کی حفاظت؛ نماز، توبہ، دعا اور استغفار پر خاص توجہ دینا، تلاوت قرآن کریم، بہت زیادہ صلوات (درود پاک) پڑھنا، لوگوں پر ظلم و ستم سے پرہیز کرنا۔ خوش اخلاقی۔
خطبے کے آخر میں امام علی(ع) نے اس مہینے میں سب سے افضل عمل کے بارے میں سوال کیا ؟ تو پیغمبر اکرم (ص) نے گناہ کے ترک کرنے کو اس مہینے کا سب سے افضل عمل قرار دیا اور روتے ہوئے امام (ع) کو آپکی شہادت کی بشارت دیتے ہوئے آپ کے فضائل اور کمالات میں سے بعض کو لوگوں تک پہنچایا اور آپکی امامت کے انکار کو خود پیغمبر اکرم (ع) کی نبوت کے انکار کے مساوی قرار دیا۔
اب تک کی معلومات کے بعد واضح ہوا کہ ماہِ مبارک رمضان کا تحفہ معنویت ہے۔ *ماہ مقدس غور و فکر کا موقع فراہم کرتا ہےتاکہ انسان اپنی زندگی پر نظر ڈال کر اسے آئندہ کے لیے تبدیل کرے اگر ماہ مبارک کے بعد بھی انسان کی زندگی میں اسکے کردار میں فرق نہ آئے تو اسکا مطلب یہ ہوا کے اس انسان نے ماہ مبارک سے کوئی فائدہ نہیں لیا لہذا غور فکر کی ضرورت ہے جو ہم بالکل نہیں کرتے بس رسمی امور کی انجام دہی کا کافی جانتے۔
دوسری بات خدا نے روزے اس لیے فرض کیے تاکے ہم متقی بن جائیں اور ہم خدانخواستہ چند دن اعمال کر بھی لیں اور آئندہ کی زندگی میں تبدیلی نہ لائیں تو اسکا مطلب ہے کے ہم نے ماہ مقدس کے فلفسے کو سمجھا ہی نہیں نتیجتاً روزہ رکھا بھی مگر مطلوب خدا کو نہیں پایا ۔۔جب مطلوب خدا تک نہیں پہنچے تو معنویت کہاں سے آئیگی؟ لہذا ماہ مبارک میں جملہ اعمال صالحہ کی حکمت و فلسفہ کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم متقی بن جائیں اور آئندہ بھی متقی رہیں تا کے معنویت کو برقرار رکھنے میں مدد ملے۔
دوسری طرف وہ لاپروہ طبقہ بھی موجود ہے جسے شقی قراردیا گیا جو اس ماہ میں بھی اہتمام کرتا نظر نہیں آتا جنکے بارے کہا گیا کے ماہ مبارک گزر گیا جو خود کو بخشوا نہ سکا بدل نہ سکا متقی نہ بنا سکا وہ بد بخت ہے۔۔۔ ایسا کب ہوتا جب انسان ماہ مبارک کی اہمیت کو نظر انداز کر کے لہو و لعب میں لگا رہتا۔۔ ہمارے ہاں شاید وہ طبقہ بھی ان لاپرواہوں کی لسٹ میں آئے جو ماہ مبارک کا ایک بڑا حصہ مادیت میں گذار دیتا ادہر دس دن گذرتے نہیں کے عید کے نام پے شاپنگ کے بہانے ضیافت الہی کو چھوڑ کر مارکیٹس میں گم جاتے یہ بیچارے اس بات سے بھی لا علم ہیں کے جس عید کے لیے ضیافت الہی کو نظر انداز کر کے وہ مارکیٹوں کی زینت بن رہے وہ عید انکے لیے ہے ہی نہیں بلکہ عید بھی انکی ہے جو اس ماہ مقدس میں اطاعت خداوندی میں مشغول رہے ۔عید کی نفی نہیں کی جارہی مگر 30 دن میں سے اگر ہمارے 20 دن عید کے نام پر مارکیٹس میں گزریں تو گویا ہم نے ماہ مبارک کو نظر انداز کیا ہے۔
نتیجہ:
ضیافت الہی کےاس مہینے میں جتنا ہو سکے غور و فکر کریں۔ سوچیں کے کس ذات نے ہمیں اپنا مہمان کہا اور اس نے کن کن نعمتوں سے نوازا ۔۔ یقینا اس غور و فکر کے نتیجے میں ہم مطلوب خدا یعنی لعلكم تتقون (تاکہ تم متقی بن جاو) کی منزل کو پا لیں گے۔ خدا وندا کریم اس ماہ مبارک کو ہماری زندگیوں کا اخری مہینہ قرار نہ دے آمین۔